میں اپنے عکس سے نظریں چرائے پھرتی ہوں
کہ جب بھی آئینہ دیکھوں وہ بول اٹھتا ہے
کہاں گئیں وہ تری جھیل سی حسیں آنکھیں
کہ جن میں آس کی کونجیں قیام کرتی ہیں
کہاں گئے تری پلکوں کے ریشمی سائے
کہ جن کو دیکھ کر ہر شام مسکراتی تھی
کہاں پہ کھو گئی مسکان تیرے ہونٹوں کی
جو گرمیوں کی نرم دھوپ جیسی لگتی تھی
کہاں پہ کھو گیا تیرا اُجال دن چہرہ
کہاں گئی وہ سیاہ رات سی تری زلفیں
کہاںگئی ترے لہجے سے محبت کی کھنک
کہ جس کی تال پہ دل جھوم جھوم جاتا تھا
کہاں گئے ترے شاہ زادیوں سے وہ سپنے
کہ جن کی روشنی پلکوں پہ مسکراتی تھی
کہاں گئی وہ ہتھیلی جہاں لکیروں میں
کسی کا نام تو اکثر تلاش کرتی تھی
کہاں گئی وہ ترے لمس سے مسیحائی
ترے خیال کے جگنو بھی ہو گئے مدھم
کہاں گیا وہ محبت کا استعارہ دل
یہ پوچھتا ہے کہ تم کون ہو بتاؤ ناں!
نہیں جواب مرے پاس ان سوالوں کا
سو اپنے عکس سے نظریں چرائے پھرتی ہوں
نہیں ہیں لفظ مرے پاس جن سے یہ کہہ دوں
مری وہ جھیل سی آنکھیں، اُجال دن چہرہ
سیاہ رات سی زلفیں، کھنک وہ لہجے کی
مرے لبوں کی وہ مسکان ،سائے پلکوں کے
وہ میرا لمس اور شاہ زادیوں سے و ہ سپنے
کہاں گئے ہیں مجھے کچھ خبر نہیں اس کی
وہ جس کو ڈھونڈتی رہتی تھی میں لکیروں میں
وہ نام تو میرے ہاتھوں میں کبھی تھا ہی نہیں
میں اپنے عکس سے یہ بات کس طرح کہہ دوں
مرے وجود کی رعنائیاں تھیں جس کے سبب
جو میری روح میں ہر آن جگمگاتی تھی
وہ بجھ گئی ہے محبت مری نگاہوں میں
وہ دل کبھی جو محبت کا استعارہ تھا
وہاں پر آج کل یادیں قیام کرتی ہیں
میں اپنے عکس سے یہ بات کس طرح کہہ دوں
جہا ں پہ آ کہ یہ آسیب ٹہھر جاتی ہیں
وہا ں پہ آس کی کونجیں نہیں اترتی ہیں
وہاں پہ شام کوئی مسکرا نہیں سکتی
وہاں پہ اشک ہی آنکھوں میںجگمگاتے ہیں
میں کون ہوں اسے کیسے بھلا میں سمجھاؤں
سو اپنے عکس سے نظریں چرائے پھرتی ہوں