وہ یاد آئے تو پہروں سکوت کا عالم
دکھا گئی مجھے نیرنگیاں زمانے کی
وہ اک نگاہ کبھی ملتفت کبھی برہم
حلاوتوں میں وہ ڈوبی سی اک کرم کی نگاہ
لطافتوں میں وہ لپٹے ہوئے ہزار ستم
وہ ایک شمع کہ خود جل اٹھے ہیں گھر کے چراغ
وہ ایک صبح کہ خود جس پہ رو پڑی شبنم
محبتوں میں یہ ایماں یہ چشم نم یہ تڑپ
بتوں سے ہم کو بہت کچھ ملا خدا کی قسم
عجیب دھن تھی کہ ٹھہرے کہیں نہ دیوانے
وہ راحتوں کا چمن ہو کہ خار زار الم
نہ پوچھ کیوں مجھے آتے ہیں یاد اے جذبی
جہان درد میں درد جہاں کے وہ محرم
معین احسن جذبی