آزمائش میں مرا کردار ہے
دشمنان دین کے نرغے میں ہوں
حادثاتِ دہر کی یلغار ہے !
یا حبیب اللہ تیرا ذکر بھی !
آج کے ماحول میں دشوار ہے
ہر نظر سہمی ہوئی ہر دل اداس
زندگی اب زندگی پر بار ہے
عہدِ ماضی میں جو امت تھی چٹان
آج وہ گرتی ہوئی دیوار ہے
دین پر دنیا مسلط ہوگئی
تیری امت بے کس و نادار ہے
تو نظر پھیرے تو طوفاں زندگی !
تو نظر کردے تو بیڑا پار ہے !
واصف علی واصف