تو نہیں تھا آج تو تیرا خیال آیا بہت
دیکھتے ہی دیکھتے شاہوں کی شاہی چھن گئی
باکمالوں پر زمانے میں زوال آیا بہت
جہل کے سائے میں گہری نیند ہم سوتے رہے
ہاں اذاں دینے کو مسجد میں بلال آیا بہت
سایہء آسیب ہے مت جانا تم چوتھی طرف
اس طرف جو بھی گیا، واپس نڈھال آیا بہت
تیری جانب آ رہا ہوں روح کی تسکیں کو میں
حسرتیں دل کی میں دنیا میں نکال آیا بہت
ہم چٹانوں کی طرح باہر سے ساکت تھے عدیل
پھر بھی اکثر ذات میں اپنی اُبال آیا بہت
عدیل زیدی