کیسے میرا کٹا پھر سفر یاد ہے
خشک ہونٹوں پہ زخمی تبسم لیے
بھیگی بھیگی سی تیری نظر یاد ہے
چھوڑ آئے تھے مجبور ہو کر جسے
تیری بستی ہمیں وہ نگر یاد ہے
کوئی سمجھے کہ بھولا ہوا ہوں اسے
ہر ادا اس کی مجھ کو مگر یاد ہے
اس گلی کے شجر وہ دریچے وہ گھر
مسکراتا ہوا ہر بشر یاد ہے
وہ قمر پیار و الفت میں ڈوبا ہوا
منتظر اپنا پیارا سا گھر یاد ہے
سید ارشاد قمر