مرے نصیب میں لکھی ہوئی اذیّتیں ہیں
وہ گاؤں والے تو آئے تھے شہر میں جینے
یہاں تو شہر میں قبروں پہ بھی عمارتیں ہیں
کہاں معاوضہ ملتا ہے سوچنے کا مجھے
میں سوچتا ہوں کہ میری بھی تو ضرورتیں ہیں
میں اپنے سینے پہ سر رکھ کے سونا چاہتا ہوں
تمہارے بعد بھی مجھ میں تمہاری عادتیں ہیں
تُو بس گناہ کے ڈر سے گنہ سے دور رہا
کہاں خلوص کی واعظ تری عبادتیں ہیں
*
اے جانِ بادِ بہاراں‘ اے نازنیں پیکر!
تمہارے لمس کی حدت سے بیقرار ہوں میں
*
دنیائے بدمزاج سے کیا واسطہ مجھے
میں بدنصیبِ وقت تو یزداں کی بھول ہوں