گرچہ لہو، لہو ہوئے‘ پھر

گرچہ لہو، لہو ہوئے‘ پھر بھی تو سرخرو ہوئے
ہم مر کے پھر سے جی اُٹھے‘ مقتل کی آبرو ہوئے
ہم دشتِ بے پناہ کی‘ ظلمت میں خود سے جل اُٹھے
منزل کا راستہ بنے، جذبوں کی جستجو ہوئے
ہم کو تو یاد بھی نہیں‘ یہ چشمِ تر سے پوچھئے
آخر خیالِ یار میں‘ کتنی دفعہ وضو ہوئے
وابستگانِ زیست ہیں‘ سب کو ہی آزما لیا
مانا کہ یار یار ہیں‘ لیکن عدو عدو ہوئے
اپنوں پہ مثلِ بار تھے، اچھا ہوا اُتر گئے
سینے میں جتنے چاک تھے‘ اچھا ہوا رفو ہوئے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *