زمیں کی خیر رہے، آسماں

زمیں کی خیر رہے، آسماں کی خیر رہے
تمام لوگ رہیں خوش‘ جہاں کی خیر رہے
سبھی پجاری یونہی شادمان رقص کریں
سنو اے جلوہ گرو! آستاں کی خیر رہے
خدا کرے کہ مرے زخم یوں ہی تازہ رہیں
مرے کریم! مرے مہرباں کی خیر رہے
کوئی تو ہے جو مرے واسطے بھی سوچتا ہے
عدو کی خیر، صفِ دشمناں کی خیر رہے
مری بلا سے یہ پورا جہان خاک بنے
مگر میں کہتا ہوں بس جانِ جاں کی خیر رہے
تمہارا جسم یونہی موج خیز تا بہ اَبد
سو تا بہ حشر دلِ ناتواں کی خیر رہے
وقارؔ! قیس یونہی حشر تک بھٹکتے رہیں
رہے فراق‘ غمِ عاشقاں کی خیر رہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *