اپنی مرضی سے بہائے تو نہیں جاتے ہیں
ہائے وہ لوگ جو راہوں میں بچھڑ جاتے ہیں
ہائے وہ لوگ بھلائے تو نہیں جاتے ہیں
وہ مٹا لیں بھی اگر اپنی کتابوں سے نقوش
نقش آنکھوں سے مٹائے تو نہیں جاتے ہیں
ڈوب جاتا ہے ترے وصل کا سورج جاناں
پر تری یاد کے سائے تو نہیں جاتے ہیں
ساری قسمیں بھی تو پوری نہیں ہو سکتیں وقارؔ
سارے وعدے بھی نبھائے تو نہیں جاتے ہیں
*
مفت میں ہاتھ ملاتے ہی نہیں
لوگ ہر شے کا صلہ مانگتے ہیں
ہم ترے ہونٹ اگر پی لیں کبھی
پھر کہاں آبِ بقا مانگتے ہیں