یہ دنیا لاکھ نہ مانے پر مجھ میں رہے مرا یار
میں نوکر اپنے یار کا ، مرا رب وی میرا یار
میں مان لوں بند اکھیوں سے جو حکم کرے مرا یار
کیا نرخ بہشت کے چکر، کیوں ’’گھاٹا وادھا‘‘ سوچ
چپ سادھے ساتھ میں چل دوں‘ جہاں لے کے چلے مرا یار
ہو بے چینی بھری عمر کی‘ یا مرگ کی لمبی نیند
میں اپنے پلّے باندھ لوں مجھے جو کچھ دے مرا یار
مرے آنسو پونچھ کے سوہنا‘ مرا ماتھا چومتا جائے
میں سینے لگ کے روؤں‘ مرے درد سہے مرا یار
مری تختی کوری ذات کی‘ مرا اندر باہر صاف
مرا دین وقارؔ وہ ہو گا‘ اب جو بھی لکھے مرا یار