ہائے! وہ شخص بھی مرا نہ ہوا
اک طرف رب تھا اک طرف مرا یار
اور پھر مجھ سے فیصلہ نہ ہوا
آگ کو زَعم تھا‘ جلا دے گی
عشق کو مسئلہ ذرا نہ ہوا
درد مندانِ شہر سب بے سود
جُز صنم کوئی کام کا نہ ہوا
میں نے انسان سے محبت کی
میرا یہ دین کیا نیا نہ ہوا؟
تُو نے یہ جسم مجھ کو سونپا ہے؟
یہ مگر میرا مدّعا نہ ہوا
*
مانا کہ فرض ہیں ترے سارے مطالبات
بندوں کے کچھ حقوق بھی ہونے تو چاہئیں