مجھے منزلوں کا گمان کیا‘ مرا راستہ بھی فریب تھا
ہم اندھیر نگری کے باسیوں کو ‘ پتہ کبھی بھی نہ چل سکا
وہ جو روشنی تھی فریب تھی‘ وہ ترا دِیا بھی فریب تھا
میں نے مسجدوں کی زیارتوں میں خدا بھی اپنا گنوا دیا
مری پوجا پاٹ بھی جھوٹ تھی‘ مرا دیوتا بھی فریب تھا
جو مرا خیال و بیان تھا‘ مجھے خود کو بھی نہ بدل سکا
مری زندگی بھی زیاں رہی‘ مرا فلسفہ بھی فریب تھا
ہمیں جان دینے کے بعد میں یہ پتہ چلا تھا کہ پیار وہ
جو اُسے ہوا بھی فریب تھا‘ جو مجھے ہوا بھی فریب تھا
جو وقارؔ چہروں کی بھیڑ تھی‘ وہ فسونِ رنگِ حیات تھا
سرِ آئینہ بھی فریب تھا‘ پسِ آئینہ بھی فریب تھا!
*
ہمارے خون میں شامل ہے پیار کرنا وقار ؔ
ہمارے پیارکے قصے سنائے جاتے ہیں