شہرِ لاہور کی شہزادی تھی

شہرِ لاہور کی شہزادی تھی
اس کی چاہت بھلے میعادی تھی
دام بکھرتے تھے کنول آنکھوں کے
اوج پر عادتِ صیادی تھی
کس قیامت کا چلن تھا اس کا
خوش خرامی ستم ایجادی تھی
کتنے عشاق تھے عاجز اس سے
ایک آبادی کی بربادی تھی
ابتری، اشک، جلاپے، نالے
اس کی شادی تھی کہ ناشادی تھی
میں بھی رویا تھا کسی گوشے میں
اپنے حجلے میں وہ فریادی تھی
اس کو مشروط محبت کا خیال
مجھ کو پیاری مری آزادی تھی
اس کے نزدیک بتائوں کس کو
میری لغزش تھی کہ بنیادی تھی
میں رہا کرتا تھا گر اس کے قریں
وہ بھی سانسوں کی مرے عادی تھی
وہ مری دوست تھی اور دشمن بھی
یعنی پُرکار تھی اور سادی تھی
ڈاکٹر سعادت سعید
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *