دو گنہگار زہر کھا بیٹھے
حالِ غم کہہ کے غم بڑھا بیٹھے
تیر مارے تھے تیر کھا بیٹھے
آندھیو! جائو اب کرو آرام!
ہم خود اپنا دیا بجھا بیٹھے
جی تو ہلکا ہوا، مگر یارو
رو کے ہم لُطفِ غم گنوا بیٹھے
بے سہاروں کا حوصلہ ہی گیا
گھر میں گھبرائے در پہ آ بیٹھے
جب سے بچھڑے وہ مسکرائے نہ ہم
سب نے چھیڑا تو لب ہِلا بیٹھے
ہم رہے مبتلائے دیر و حرم
وہ دبے پائوں دل میں آ بیٹھے
اُٹھ کے اک بیوفا نے دیدی جان
رہ گئے سارے باوفا بیٹھے
حشر کا دن ابھی ہے دور خمار
آپ کیوں زاہدوں میں جا بیٹھے
خمار بارہ بنکوی