مجھے بھیڑ میں راستہ دینے والے
کرم جبرِ حالات کا ہے یہ ورنہ
بڑے باوفا تھے دغا دینے والے
مری طرح دو دن تو جی کے دکھائیں
مری مے کشی کو ہوا دینے والے
اب اک اک سے خود ہی دوا پوچھتے ہیں
مجھے دردِ دل کی دوا دینے والے
بشر تھا میں کیسے نہ کرتا خطائیں
سنبھل کے سزا و جزا دینے والے
محبت نہیں یہ تو پھر اور کیا ہے
خفا ہو کے او مسکرا دینے والے
مروں اور در پر تو بدظن نہ ہونا
مجھے اپنے در سے اُٹھا دینے والے
مری زندگی ہی تو میرا فرض ہے
مجھے زہر دے دے دوا دینے والے
کبھی رِند تھے، اب فرشتے ہیں یا رب تیری
رحمتوں کو بُھلا دینے والے
خمار اور ترکِ مے نام توبہ!
سلامت رہیں مشورہ دینے والے
خمار بارہ بنکوی