وہ کچی آگ ہے جس میں دھواں ہو
عدو تم سے تم ان سے بدگماں ہو
تمھارے وہ تم ان کے پاسباں ہو
بھلا تم اور مجھ پر مہرباں ہو
عنایت یہ نصیب دشمناں ہو
مرا حال اور پھر میرا بیاں ہو
عجب کیا گر عدو بھی ہم زباں ہو
کہیں کس سے خودی میں تم کہاں ہو
گلہ جب ہو کہ قابو میں زباں ہو
تمھاری بے رخی شکوے ہمارے
قیامت تک نہ پوری داستاں ہو
زباں بہکی ہوئی حیراں نگاہیں
خیال دل کہاں ہے تم کہاں ہو
مزہ جب آئے ان سے گفتگو کا
پیامی کا دہن میری زباں ہو
کشیدہ کیوں نہ ہو بازار یوسف
کہ جب تم سا متاع کارواں ہو
کہوں کیا راز دل کیوں کر ہو باور
کہ تم سا ہی تمھارا رازداں ہو
ابھی سے کس لیے دل چھوڑ بیٹھیں
جہاں تک ہو سکے آہ و فغاں ہو
ظہیر دہلوی