چاند سا چہرہ اور نکھر گیا ہو گا
اب کے برسات کے موسم سے
میں تو کیا تو بھی ڈر گیا ہو گا
خواب راتوں کی محبت کا ثمر
خدا جانے کس پر گیا ہو گا
لوٹ ہی آئوں گا ابھی اگلے برس
جانے والا سوچ کر گیا ہو گا
وہ جس کو شوق تھا راستے بدلنے کا
تھک گیا ہو گا تو اپنے گھر گیا ہو گا
امجد شیخ