بحر ٹوٹی ہوئی ہے چن فعلن
گر عروضی زبان سیکھنی ہے
پھر تو کہنا پڑے گا کن فعلن
ہم نے اس کو کیا ہے استعمال
کیوں نہ گائے ہمارے گن فعلن
لفظ ہوتا ہے ہر غزل کی آنکھ
خواب کے ساتھ اس میں بن فعلن
زندگی ایسی بحر ہے جیسے
فاعلاتن مفاعلن فعلن
ہے اگر شاعری کوئی نغمہ
دوستو پھر ہے اس کی دھن فعلن
پی غزل کی شراب دونوں نے
ہے مرے ساتھ ساتھ ٹن فعلن
اعجاز توکّل