زندگی ایک دن رُخ بدل جائیگی
پیار کے چند لمحوں میں کیا خبر تھی
بات سوچوں سے آگے نکل جائیگی
ہے غریبوں کی بچی نہ گڑیا دیکھی
نہ سمجھ ہے بیچاری مچل جائیگی
چند دن کو ہے خوابوں کی دنیا جواں
برف ہے خود بہ خود ہی پگھل جائیگی
میرے ایسے وسیلے ہیں چاہوں اگر
موت بھی آنا چاہے تو ٹل جائیگی
سادہ پانی کا اک جام دے دے کوئی
بھوک کچھ دیر کو تو سنبھل جائیگی
ہر طرف عشق کی آگ لگنے لگی
ماہ رخ تو سنبھل ورنہ جل جائیگی
ماہ رخ زیدی