لہو لہو سے گلابوں کی داستاں دیکھو

لہو لہو سے گلابوں کی داستاں دیکھو
ہوئے ہیں قتل بہاروں میں گلستاں دیکھو
سوئے فلک تو سدا دیکھتے ہی رہتے ہو
کبھی تو پلکوں پہ بکھری یہ کہکشاں دیکھو
کسی نے دل لگی، دل کی لگی کسی نے کہا
کسی کے جذبوں کا ہو بھی گیا زیاں دیکھو
شجر شجر کو کہانی تمہاری بتلا دی
صبا کو سمجھا تھا تم نے ہی رازداں دیکھو
ہماری آنکھوں کی برسات دیکھتے کیا ہو
اتر گئی ہیں لہو میں جو بجلیاں دیکھو
نشاں انہی کے ہیں باقی کتابِ ہستی میں
زمانہ کرتا رہا جن کو بے نشاں دیکھو
فصیلِ جسم ہے چھلنی تو سر سلامت ہے
عجیب روح میں چلتی ہیں آندھیاں دیکھو
بتول جس کے لیے زندگی لٹا دی ہے
وہ شخص آج بھی ہم سے ہے بدگماں دیکھو
فاخرہ بتول
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *