کہ بہر طور اسے یاد تو آنا ہو گا
کوئی موسم ہو، مہکتا رہے، شاداب رہے
اپنی آنکھوں کو کنول ایسا بنانا ہو گا
بند مٹھی سے جو اُڑ جاتی ہے قسمت کی پری
اس ہتھیلی میں کوئی چھید پُرانا ہو گا
آبلے پائوں کے مہکیں تو مگر درد نہ دیں
دشت میں ریت کے ذروں کو بتانا ہو گا
زاویے اس کی نگاہوں کے بڑے قاتل ہیں
سامنے اس کے بہت سوچ کے جانا ہو گا
گھائو کتنا بھی پرانا ہو، بہر حال اسے
کچے موسم کی شرارت سے بچانا ہو گا
ہاتھ لکھنے پہ مصر، خوف زمانے کا بتول
پیڑ پر نام کوئی لکھ کے مٹانا ہو گا
فاخرہ بتول