کسی طرح بھی نہ تجھ کو قرار آئے گا
کہاں جُنوں کا لبادہ اُتار آئے گا
کچھ اِس طرح سے بچھایا ہے اُس نے دامِ فریب
کہ خود ہی جال میں اِک اِک شکار آئے گا
خرد کو چھوڑئے ہے عشق کو بڑی اُمّید
وفا کے رتھ پہ وہ ہو کر سوار آئے گا
اُنھیں ہماری شرافت نہیں شرارت پر
کہاں خبر تھی کہ اِس درجہ پیار آئے گا
خیال و فکر میں رنگت نہیں محبّت کی
غزل کے چہرے پہ کیسے نکھار آئے گا
یہ خشک ہوتا پسینا ہے پوچھتا ہر شام
کہ کب تلک یونہی راشن اُدھار آئے گا
وہ جان جائے گا کیا ہیں خلوص و مہر و وفا
جو اُن کے شہر میں اِک دن گزار آئے گا
سنبھل کے چلئے گا راغبؔ ڈگر پہ جیون کی
کہیں چڑھاو کہیں پر اُتار آئے گا
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: خیال چہرہ