کسی پہ دل کو نثار کر کے تڑپ رہا ہوں
میں کیا کہوں کس سے پیار کر کے تڑپ رہا ہوں
میں غیر تھا تو بہت زیادہ سکون سے تھا
کسی کو اپنا شمار کر کے تڑپ رہا ہوں
وہ جانتا ہے مگر نہ آئے گا مجھ سے ملنے
میں اس کا ہی انتظار کر کے تڑپ رہا ہوں
کسی کو کیا دوش دوں کہ خود ہی عدو ہوں اپنا
خوشی کا اپنی شکار کر کے تڑپ رہا ہوں
نہ جانے کیوں کر لیا ہے لازم وفا کو خود پر
کسی سے قول و قرار کر کے تڑپ رہا ہوں
کسی سے کس منھ سے کوئی شکوہ کروں میں آخر
میں خود ہی دل کو فگار کر کے تڑپ رہا ہوں
مِرے مقابل کہاں ہے کوئی جو مجھ سے لڑتا
میں اپنے اوپر ہی وار کر کے تڑپ رہا ہوں
میں ڈر رہا ہوں جنوں کی حد سے گزر نہ جاؤں
لباسِ عشق اختیار کر کے تڑپ رہا ہوں
علیم ہے توٗ، کریم ہے توٗ، رحیم ہے توٗ
گناہ اپنے شمار کر کے تڑپ رہا ہوں
تڑپ رہا ہوں کسی کا ہوکر میں دل سے راغبؔ
کسی کو صد افتخار کر کے تڑپ رہا ہوں
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: یعنی تُو