ہر اِک قدم پہ رنگ فشانی سفر میں ہے
ہم راہ جب سے دلبرِ جانی سفر میں ہے
بچپن کے سارے خواب کچلنے پڑے جسے
آزردہ آج بھی وہ جوانی سفر میں ہے
راہِ وفا میں تو نے عطا کی ہے جو مجھے
روشن وہ ایک ایک نشانی سفر میں ہے
دیوانوں کا بھی رختِ سفر دیکھ اِک نظر
نان و نمک نہ آگ نہ پانی سفر میں ہے
دیکھا سفر میں اِک رخِ تاباں تو یوں لگا
گویا زمیں پہ خاورِ ثانی سفر میں ہے
وہ قوم راہِ راست سے بھٹکے گی کس طرح
آباء کی جس کو یاد کہانی سفر میں ہے
آگے ہی بڑھتے جانا ہے راغبؔ تمام عمر
دریا کا جس طرح سے یہ پانی سفر میں ہے
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: لفظوں میں احساس