سنا تھا میں نے

غزل
سنا تھا میں نے پیسہ بولتا ہے
تِری محفل میں دیکھا بولتا ہے
عبث واعظ تِری شعلہ بیانی
کہ بولیں لوگ اچھّا بولتا ہے
خرد کی بات سنتے ہی کہاں ہیں
وہ جن کے سر میں سودا بولتا ہے
کہاں رہتی ہے خاموشی سفر میں
مسافر چپ تو رستہ بولتا ہے
زباں کچھ اور کہتی ہے تمھاری
مگر کچھ اور چہرہ بولتا ہے
بہت مغموم ہے مہجور راغبؔ
دِکھاوا ہے جو ہنستا بولتا ہے
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: لفظوں میں احساس
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *