سامنے آگئی اِک روز یہ سچّائی بھی
دشمنِ جاں یہ سماعت بھی ہے بینائی بھی
پیکرِ شعر میں ہر جذبہ نہیں ڈھل پاتا
کچھ نئے لفظ دے یا چھین لے گویائی بھی
حسبِ معمول تجھے دیکھ کے دل شاد ہُوا
خواب ٹوٹا تو طبیعت مِری گھبرائی بھی
کس قدر خوف تمھیں تھا مِری بے تابی سے
دیکھ لی تم نے مِرے دل کی شکیبائی بھی
خود کو کرتی رہی قربان درختوں پہ ہَوا
سبز شاخوں کو کبھی توڑ کے اِترائی بھی
کم نہیں بے کس و مفلس کی مدد سے راغبؔ
پیڑ پودوں کی نگہ داشت بھی سینچائی بھی
اپریل ۲۰۱۲ءطرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت