زمیں ہے نوحہ کناں امن و آشتی کے لیے
پہ مشتِ خاک بضد اور کج روی کے لیے
دل و دماغ بھی، آب و ہَوا بھی آلودہ
دعاے خیر ہو اکّیسویں صدی کے لیے
کچھ اور امن پرستوں کا آج شیوہ ہے
کچھ اور چاہیے دل کی شگفتگی کے لیے
مرے خدا مجھے اپنی امان میں رکھنا
پھر اُس نے ہاتھ بڑھایا ہے دوستی کے لیے
ہر اک نگاہ پڑی مجھ پہ سرسری راغبؔ
نگاہِ قلب تھی درکار آگہی کے لیے
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: یعنی تُو