رہے گا حرفِ دعا یوں ہی بے اثر کب تک
وفا کی آس میں زندہ رہوں مگر کب تک
کسی کے عشق میں کب تک مجھے سلگنا ہے
رہے گی شدّتِ جذبات اِس قدر کب تک
کوئی تو نغمۂ پُر حوصلہ سنانے آئے
کہ اہلِ دل کو رلائیں گے نوحہ گر کب تک
کبھی تو ہمتِ اظہارِ آرزو ہو جائے
اِس اہتمام سے رکھّوں میں دل میں ڈر کب تک
نہ جانے کب وہ خیالوں کی بزم میں آئیں
سجاؤں قصرِ غزل کے میں بام و در کب تک
عجیب حشر ہے برپا درونِ دشتِ بدن
رہے گا آہوِ وحشت کا شور و شر کب تک
کبھی تو ان کو لبھائے مِری غزل راغبؔ
نہاں رہے گا مِرا جوہرِ ہنر کب تک
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: یعنی تُو