ختم ہو جائے لڑائی بیچ میں
اِس لیے پڑتا ہوں بھائی بیچ میں
میں وطن میں فون کرتا رہ گیا
رہ گئی ساری کمائی بیچ میں
بھائی بھائی کو جھگڑتا دیکھ کر
آگیا دشمن کا بھائی بیچ میں
ڈھو رہا ہے کم سنی سے گھر کا بوجھ
چھوڑ کر اپنی پڑھائی بیچ میں
ہر طرف ہے تیری یادوں کا ہجوم
اور میری چارپائی بیچ میں
کر رہے ہو تم سفر سوئے بہشت
دیکھنا دنیا ہے بھائی بیچ میں
ساتھ چلنے کا تھا وعدہ عمر بھر
کر گیا وہ بے وفائی بیچ میں
چارہ گر سے کیوں ہے راغبؔ وہ خفا
چھوڑ دی جس نے دوائی بیچ میں
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: لفظوں میں احساس