حال کہنا تھا دل کا بر موقع
وقت نے کب دیا مگر موقع
تم بہت سوچنے کے عادی ہو
تم گنْواتے رہو گے ہر موقع
حالِ دل تجھ سے کہہ نہ پائوں گا
مل بھی جائے کبھی اگر موقع
جانے کب ہاتھ سے نکل جائے
زندگی کا یہ مختصر موقع
موسمِ ہجر میں برسنا ہے
کم نہیں تم کو چشمِ تر موقع
تیرے آنے میں ہو گئی تاخیر
اب کہاں میرے چارہ گر موقع
لگ رہا ہے کہ مل نہ پائے گا
تم سے ملنے کا عمر بھر موقع
روز فتنہ کوئی اُٹھانے کا
ڈھونڈ لیتے ہیں فتنہ گر موقع
اہلِ دانش بھی اب کہاں راغبؔ
بات کرتے ہیں دیکھ کر موقع
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: لفظوں میں احساس