جب سے ٹوٹ پڑا ہے مجھ پر سنّاٹا
اندر حشر ہے برپا باہر سنّاٹا
سنّاٹا ٹوٹے گا کس کی آہٹ سے
کون بکھیر گیا ہے یکسر سنّاٹا
میری حالت کا احساس تجھے ہو جائے
برسے اگر یوں تیرے اوپر سنّاٹا
ہر جانب ہے جانے کیسی محرومی
بکھرا ہے آنکھوں کے اندر سنّاٹا
تم کیا بچھڑے ساری شوخی ختم ہوئی
آوازے کستا ہے مجھ پر سنّاٹا
ہنگامے کے بعد ہوا ایسا عالم
دستک دینے نکلا گھر گھر سنّاٹا
سنّاٹوں کے شہر میں آپہنچے راغبؔ
اور کہاں ہم جاتے لے کر سنّاٹا
جنوری ۲۰۱۲ء غیر طرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت