بجھ رہا تھا اُجال کر خود کو
کتنا رکھتا سنبھال کر خود کو
زندگی ہم کو آزماتی ہے
آزمایش میں ڈال کر خود کو
کتنا مشکل ہے آج کل رکھنا
اپنے سانچے میں ڈھال کر خود کو
ان سے غصّے میں گفتگو کرنا
سرد کرنا اُبال کر خود کو
اپنے گرداب ہی میں رکھ اے عشق
کیا کروں گا نکال کر خود کو
فیصلہ کر رہا ہوں قسمت کا
سکّے جیسا اُچھال کر خود کو
عشق کی انتہا ہے کیا راغبؔ
ڈھونڈنا بھول بھال کر خود کو
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: یعنی تُو