آکر دل کو سمجھا جاتے تو کیا جاتا
بس ایک جھلک دِکھلا جاتے تو کیا جاتا
کیا جاتا اگر تھوڑا سا پیار جتا جاتے
ہنس بول کے دل بہلا جاتے تو کیا جاتا
برسوں سے تمھارے شہر میں آ کر ٹھہرا ہوں
کبھی مجھ سے ملنے آ جاتے تو کیا جاتا
اِس تشنہ لبی کو اِک ڈھارس تو بندھ جاتی
تم بادل بن کر چھا جاتے تو کیا جاتا
ویسے تو بہت محفوظ ہو تم دل درپن میں
اِک تازہ عکس بنا جاتے تو کیا جاتا
اِس دیوانے کی خاطرداری کی خاطر
اِک پتھّر لے کر آ جاتے تو کیا جاتا
راغبؔ کو جلا کر چین سے تم کیوں بیٹھ گئے
غیروں کے دل بھی جلا جاتے تو کیا جاتا
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: لفظوں میں احساس