دفن ہے یہ مزار سے باہر
آنیوالے ہجوم نے مجھ کو
کر دیا ہے قطار سے باہر
شیر سویا ہے اور جاگتی ہے
اس کی ہیبت کچھار سے باہر
جان لیوا ہے اس کو چھونا بھی
برق رہتی ہے تار سے باہر
آ کبھی ایک دن تو مجھ سے مل
ساعتِ انتظار سے باہر
ایک چھوٹا سا پر سکوں گھر ہو
شہر کے انتشار سے باہر
افتخار نسیم