محازِ زیست سے لوٹا ہوں سرخرو ہو کر
اُسی کی دید کو اب رات دن تڑپتے ہی ہیں
کہ جس سے بات نہ کی ہم نے دُوبدو ہو کر
بجھا چراغ ہے دل کا، وگرنہ کیسے مجھے
نظر نہ آئیگا وہ میرے چار سُو ہو کر
ہم اپنے آپ ہی مجرم ہیں اپنے منصف بھی
خود اعتراف کریں اپنے رُوبرو ہو کر
اس ایک خواہشِ دل کا پتہ چلا نہ اُسے
جو درمیاں میں رہی صرف ہو کر
میں سب میں رہتے ہوئے کس طرح بھلائوں تجھے
ہر ایک شخص ہی ملتا ہے مجھ کو تو ہو کر
اب اس کے سامنے جاتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں
بھلا دیا تھا جسے محوِ جستجو ہو کر
ہوئی نہ جذب زمیں میں تو رات کی بارش
فضا میں پھیل گئی خاکِ رنگ و بو ہو کر
مٹا جو آنکھ کے شیشوں کے اس کا عکس نسیم
رگوں میں پھیل گیا خوں کی آرزو ہو کر
افتخار نسیم