گھر لوٹ کے جائو گے تو وہ گھر نہ ملیگا
اس جنگ میں گر جیت بھی جائو گے تو کیا ہے
اس تاج کو رکھنے کیلئے سر نہ ملیگا
اس شہر کے لوگوں کو یقیں ہی نہیں کل پر
اس شہر کی گلیوں میں گداگر نہ ملیگا
میں جانتا ہوں پاس بلائے گا نہ مجھ کو
میں جانتا ہوں وہ کبھی آکر نہ ملیگا
اُڑ جائیگا وہ خواب درِ چشم کے کُھلتے
خوشبو ہے وہ پھر پھول کے اندر نہ ملیگا
افتخار نسیم