اک دیا تو روشن ہے اک دیا جلانا ہے
ان کو بھول جائیں ہم دیکھ بھی نہ پائیں ہم
یہ بھی کیسے ممکن ہے ایسا کس نے مانا ہے
بارشوں کے موسم میں ہم کو یاد آتے ہیں
وہ جو اب نہیں ملتے ان کو یہ بتانا ہے
بس انہیں پہ مرتے ہیں جن سے پیار کرتے ہیں
پیار کرنے والوں کو جانتا زمانہ ہے
اس طرح تو ہوتا ہے پیار کرنے والوں میں
اک کو یاد رکھنا ہے اک کو بھول جانا ہے
صبح کے پرندے بھی اب تو لوٹ آئے ہیں
شام سر پہ آئی ہے اور گھر بھی جانا ہے
شام کے اُجالے میں کیوں خاموش پھرتے ہو
آج سخت سردی ہے رت بھی عاشقانہ ہے
گیت ہم سناتے ہیں روز وہ بلاتے ہیں
ان سے بات کرنے کا ایک یہی بہانہ ہے
دوستی نبھانے کا اک یہی سلیقہ ہے
ایک بات کرنی ہے ایک کو چھپانا ہے
پیار کا زمانہ بھی کیا حسن زمانہ تھا
اس غزل کے مقطع میں بس یہی بتانا ہے
حسن رضوی