دل رنجیدہ کو اکثر یہی سمجھاتے ہیں

دل رنجیدہ کو اکثر یہی سمجھاتے ہیں
جو بھلا کرتے ہیں کب اس کا صلہ پاتے ہیں
کہتے ہیں دشت کا سناٹا یہاں پر بھی ہے
آج کی شب چلو ہم شہر میں رہ جاتے ہیں
درد کی لہروں سے بنتے ہیں صحیفے جتنے
ہجر کی شب دل مخروں پہ اتر آتے ہیں
وسعت آئینہ کی وسعت صحرا کم ہے
آپ کی عکس سے تو صرف بہل جاتے ہیں
آپ کو عرض تمنا کی طلب ہے ہم سے
ہم توقع بھی اگر رکھیں تو گھبراتے ہیں
آج کل بات بھی کرنے کا نہیں ہم کو دماغ
آپ سے ملنے تعجب ہے چلے آتے ہیں
شاہد رضوی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *