تغافل اور کرم دونوں برابر کام کرتے تھے

تغافل اور کرم دونوں برابر کام کرتے تھے
جگر کے زخم بھرتے تھے تو دل کے داغ ابھرتے تھے

خدا جانے ہمیں کیا تھا کہ پھر بھی ان پہ مرتے تھے
جو دن بھر میں ہزاروں وعدے کرتے تھے مکرتے تھے

نہ پوچھو ان کی تصویر خیالی کی سجاوٹ کو
ادھر دل رنگ دیتا تھا ادھر ہم رنگ بھرتے تھے

محبت کا سمندر اس کی موجیں اے معاذ اللہ
دل اتنا ڈوبتا جاتا تھا جتنا ہم ابھرتے تھے

عجب کچھ زندگانی ہو گئی تھی ہجر میں اپنی
نہ ہنستے تھے نہ روتے تھے نہ جیتے تھے نہ مرتے تھے

شہیدان وفا کی منزلیں تو یہ ارے تو یہ
وہ راہیں بند ہو جاتیں تھیں جن پر سے گزرتے تھے

نہ پوچھو اس کی بزم ناز کی کیفیتیں منظر
ہزاروں بار جیتے تھے ہزاروں بار مرتے تھے

منظر لکھنوی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *