ہوس نے شوق کے پہلو دبائے ہیں کیا کیا
نہ جانے سہو قلم ہے کہ شاہکار قلم
بلائے حسن نے فتنے اٹھائے ہیں کیا کیا
نگاہ ڈال دی جس پر وہ ہو گیا اندھا
نظر نے رنگ تصرف دکھائے ہیں کیا کیا
اسی فریب نے مارا کہ کل ہے کتنی دور
اس آج کل میں عبث دن گنوائے ہیں کیا کیا
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا
گزر کے آپ سے ہم آپ تک پہنچ تو گئے
مگر خبر بھی ہے کچھ پھیر کھائے ہیں کیا کیا
بلند ہو تو کھلے تجھ پہ زور پستی کا
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
خوشی میں اپنے قدم چوم لوں تو زیبا ہے
وہ لغزشوں پہ مری مسکرائے ہیں کیا کیا
خدا ہی جانے یگانہ میں کون ہوں کیا ہوں
خود اپنی ذات پہ شک دل میں آئے ہیں کیا کیا
یاس یگانہ چنگیزی