دیکھ کر مجھ کو گزر جاتے ہو حد کرتے ہو
نین تو یوں ہی تمھارے ہیں بلا کے قاتل
اُس پہ تم روز سنور جاتے ہو حد کرتے ہو
میری آنکھوں سے بھی آنسو نہیں گرنے پاتے
میری آنکھوں میں ٹھہر جاتے ہو حد کرتے ہو
میرے جذبات میں تم بہہ تو لیا کرتے ہو
کیسے دریا ہو اتر جاتے ہو حد کرتے ہو
میں بھی ہر روز ہی کرتی ہوں بھروسا تم پر
تم بھی ہر روز مکر جاتے ہو حد کرتے ہو
تم تو کہتے تھے ربابؔ اب میں تری مانوں گا
پھر بھی تم دیر سے گھر آتے ہو حد کرتے ہو
فوزیہ ربابؔ