حسن سادہ کا وار آنکھیں ہیں

حسن سادہ کا وار آنکھیں ہیں
بِن ترے بے قرار آنکھیں ہیں
میری جانب ہے جو ترا چہرہ
میری جانب ہزار آنکھیں ہیں
عیب تیرا کہاں چھپے گا اب
شہر میں بے شمار آنکھیں ہیں
میں نے طرزِ وفا تھا اپنایا
اس لیے اشکبار آنکھیں ہیں
پارسائی کہاں گئی بولو
آج کیوں داغدار آنکھیں ہیں
ایک نقشہ تھا خواب کا کھینچا
اس لیے تار تار آنکھیں ہیں
جیسے ان میں سحاب رہتے ہوں
کتنی زار و قطار آنکھیں ہیں
جن کی تعبیر میں ملے وحشت
ایسے خوابوں پہ بار آنکھیں ہیں
وہ جو چہرہ ہی پڑھ نہیں سکتیں
کتنی جاہل گنوار آنکھیں ہیں
ہر نظر آر پار ہوتی ہے
ہائے کیا دل فگار آنکھیں ہیں
خواب دیکھا ربابؔ نے کیوں کر
کیوں بہت سوگوار آنکھیں ہیں
فوزیہ ربابؔ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *