شرارتوں پہ یقیں کوئی کر بھی سکتا ہے

شرارتوں پہ یقیں کوئی کر بھی سکتا ہے
سمجھ کے عشق کوئی تجھ پہ مر بھی سکتا ہے
یہ بات بات پہ قسمت کو دوش کیا دینا
نصیب زلف نہیں ہے سنور بھی سکتا ہے
یہ دل کی اجڑی ہوئی اک سراے ہے سو یہاں
کوئی حسین مسافر ٹھہر بھی سکتا ہے
یہ بادلوں کا بسیرا تو عام ہے لیکن
ہماری آنکھ سے دریا اتر بھی سکتا ہے
جو شہر بھر میں کرے تیرے نام کی تشہیر
وہ تیرے نام پہ الزام دھر بھی سکتا ہے
چلے تو آئے ہو کاغذ کی ناؤ لے کر تم
عصا بدست ہو دریا ٹھہر بھی سکتا ہے
وہ کہہ رہا ہے نبھائے گا عمر بھر رشتہ
مگر وہ قول سے اپنے مکر بھی سکتا ہے
مجھے گماں ہے کہ دھوکا ہے چاندنی شب بھی
کہ چاند دیکھ کے تجھ کو نکھر بھی سکتا ہے
ربابؔ چارہ گروں سے کرو کنارہ اب
جو زخم دل پہ لگا ہے وہ بھر بھی سکتا ہے
فوزیہ ربابؔ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *