یوں ہی دکھ ہو جاویں گے کم شہزادے

یوں ہی دکھ ہو جاویں گے کم شہزادے
آ جا سکھ کے خواب بنین ہم شہزادے
اپنے ہوش گنوا بیٹھی ہوں پھر سے آج
سوچ رہی ہوں تجھ کو ہر دم شہزادے
شہزادی کے خواب عذاب نہ کر جانا
ہو جاویں گی آنکھیں پُر نم شہزادے
میری روح میں تیری یاد اُترتی ہے
ہولے ہولے مدھم مدھم شہزادے
ایسا سخت تکلّم آخر کیوں بولو
کیوں رہتے ہو برہم برہم شہزادے
کب تک تنہا تنہا ٹوٹیں بکھریں گے
روح میں روح کو ہونے دے ضم شہزادے
شہزادے! کچھ اور نہ مانگے شہزادی
نکلے تیری بانہوں میں دم شہزادے
رفتہ رفتہ ہو گئے آخر تیرے نام
میرا جیون میرے موسم شہزادے
تجھ سے ہی مانوس ہوا سو توٗ جانے
جگ کیا جانے دل کا عالم شہزادے
آنسو تجھ کو ڈھونڈیں ہیں دیوانہ وار
شہزادی کی آنکھیں ہیں نم شہزادے
کب تک تنہا چُنتی جائے زخم ربابؔ
رکھ میٹھے لفظوں کے مرہم شہزادے
فوزیہ ربابؔ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *