حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں
جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی
تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں
کون سا موڑ ہے کیوں پاؤں پکڑتی ہے زمیں
اس کی بستی بھی نہیں کوئی پکارا بھی نہیں
بے نیازی سے سبھی قریۂ جاں سے گزرے
دیکھتا کوئی نہیں ہے کہ تماشا بھی نہیں
وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا
تو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں
کس کو نیرنگئ ایام کی صورت دکھلائیں
رنگ اڑتا بھی نہیں نقش ٹھہرتا بھی نہیں
یا ہمیں کو نہ ملا اس کی حقیقت کا سراغ
یا سرا پردۂ عالم میں کوئی تھا بھی نہیں
اسلم انصاری