پرورش پائی ہے اپنے خون ہی کی دھار پر
چاہنے والے کی اک غلطی سے برہم ہو گیا
فخر تھا کتنا اسے خود پیار کے معیار پر
رات گہری میری تنہائی کا ساگر اور پھر
تیری یادوں کے سلگتے دیپ ہر منجدھار پر
شام آئی اور سب شاخوں کی کلیاں سو گئیں
موت کا سایا سا منڈلانے لگا اشجار پر
خلوت شب میں یہ اکثر سوچتا کیوں ہوں کہ چاند
نور کا بوسہ ہے گویا رات کے رخسار پر
سال نو آتا ہے تو محفوظ کر لیتا ہوں میں
کچھ پرانے سے کلینڈر ذہن کی دیوار پر
زندگی آزاد پہلے یوں کبھی تنہا نہ تھی
آدمی بہتا تھا یوں ہی وقت کی رفتار پر
آزاد گلاٹی