یہ زمیں ہم پہ بہت تنگ رہی ہے برسوں
تم کو پانے کے لیے تم کو بھلانے کے لیے
دل میں اور عقل میں اک جنگ رہی ہے برسوں
اپنے ہونٹوں کی دہکتی ہوئی سرخی بھر دو
داستاں عشق کی بے رنگ رہی ہے برسوں
دل نے اک چشم زدن میں ہی کیا ہے وہ کام
جس پہ دنیائے خرد دنگ رہی ہے برسوں
کس کو معلوم نہیں وقت کے دل کی دھڑکن
میری ہم راز و ہم آہنگ رہی ہے برسوں
صاف تاریخ یہ کہتی ہے کہ منصوری سے
مضمحل سطوت اورنگ رہی ہے برسوں
میری ہی آبلہ پائی کی بدولت اختر
رہگزر ان کی شفق رنگ رہی ہے برسوں
وکیل اختر