کچھ تو ایماں کی شباہت ہوگی
حشر ہے وعدۂ فردا تیرا
آج کی رات قیامت ہوگی
پوچھا پھر ہوگی ملاقات کبھی
پھر مرے حال پہ شفقت ہوگی
کس صفائی سے دیا اس نے جواب
دیکھا جائے گا جو فرصت ہوگی
خاک آسودہ غریبوں کو نہ چھیڑ
ایک کروٹ میں قیامت ہوگی
آپ کے پاؤں کے نیچے دل ہے
اک ذرا آپ کو زحمت ہوگی
ہر نفس اتنی ہی لو دے گا سراج
جتنی جس دل میں حرارت ہوگی
سراج لکھنوی