کہاں کھو دیا تو نے کیا ہو گئے ہم
محبت میں اک سانحا ہو گئے ہم
ابھی تھے ابھی جانے کیا ہو گئے ہم
محبت تو خود حسن ہے حسن کیسا
یہ کس وہم میں مبتلا ہو گئے ہم
یہ کیا کر دیا انقلاب محبت
ذرا آئینہ لا یہ کیا ہو گئے ہم
حقیقت میں بندہ بھی بننا نہ آیا
سمجھتے ہیں دل میں خدا ہو گئے ہم
قیامت تھا تجھ سے نگاہوں کا ملنا
زمانے سے نا آشنا ہو گئے ہم
نہ راس آئیں آخر ہمیں ٹھنڈی سانسیں
عجب ساز تھے بے صدا ہو گئے ہم
تصور میں بل پڑ گئے ابروؤں پر
یہ کس بے وفا سے خفا ہو گئے ہم
گداز محبت ہمیں دل بنا دے
بس ایک آنچ اور آبلہ ہو گئے ہم
کبھی بزم ہستی کی رونق ہمیں تھے
سراج اب بجھا سا دیا ہو گئے ہم
سراج لکھنوی