ہمارے دل کی دھڑکن تھم گئی ہے
وہ میرے حال سے واقف نہیں ہیں
مری اُن تک خبر کم کم گئی ہے
خوشی لینے چلی آئی تھی لیکن
وہ لڑکی آج بھی پُر نم گئی ہے
وہ شور و غُل میں کیسے بات سنتے
مری آواز بھی مدّھم گئی ہے
کبھی آ کر انہیں شفاف کر دے
ترے وعدوں پہ مٹی جم گئی ہے
زین شکیل